شہر ممبئ کی ایک اور علمی، عملی، سماجی، تعلیمی اور معاشرتی شخصیت رخصت ہوئی ـ
حضرت مولانا مستقیم احسن اعظمی، انتہائی بااخلاق، خوش اطوار، خوش لباس، خوش گفتار، متحرک، فعال، وجیہ، جاذب نظر، یارباش ہونے کے ساتھ مرنجامرنج شخصیت کے حامل تھے ـ دارالعلوم دیوبند کے قدیم فاضل،فخرالمحدثین مولانا فخرالدین مرادابادی کے شاگرد، ندوۃ العلماء و مدرسۃ الاصلاح کے فیض یافتہ، جمیعۃ علماء کے پرانے خادم، فدائےملت حضرت مولانا اسعد مدنی اورجانشین شیخ الاسلام مولاناارشد مدنی کے معتمد خاص، جمیعۃ علماء مہاراشٹرا کے صدر باوقار، آل انڈیا علماء کونسل کے سابق جنرل سکریٹری اور موجودہ نائب صدر نیز کی ممبئی کے بیشتر متحرک تنظیموں سے وابستہ بلکہ اُن کے رکن رکین، مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر اور الگ الگ سوچ رکھنے والی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ میڈیا میں بھی قابل احترام سمجھے جانے والے مولانا مستقیم احسن اعظمی اگرچہ پچھلے کچھ عرصے سے صاحب فراش اور خانہ نشین تھے،تاہم ان کی وفات سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے ممبئی کی سماجی اور عوامی زندگی کی رونقیں اجڑ گئی ہوں ـ
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
ایک زمانہ تھا کہ مولانا مستقیم صاحب فجر بعد ہی اونچی ٹوپی، صدری یا شیروانی، کلف لگا کرتاپجامہ، عطر گلاب سے مہکتے مہکاتے گھر سے نکل جاتے تھے،.......... پھر دن بھر یہ میٹنگ وہ میٹنگ،فلاں سرکاری افسر سے ملاقات، فلاں نیتا کے یہاں نمائندگی، فلاں جگہ کا دورہ، فلاں جگہ کے سیلاب، زلزلہ ودیگر قدرتی و حکومتی آفات کا شکار افراد کی ریلیف کی کوششیں، جمیعۃ علماء کےدفتر میں مظلومین ومتاثرین کی دلداری، کبھی ممبئی امن کمیٹی کے دفتر میں شہر کی ملی تنظیموں سے گفتگو، غرض عشاء بعد اور کبھی عشاء کے بعد بھی دیر رات تک فارغ ہوتے اور گھر کی طرف روانہ ہوتے، یہ ایک دن کا نہیں سردی،گرمی،برسات، غرض روز کا معمول تھا ـ ممبئی میں مسلمانوں کی وہ کون سی مجلس، کون سی بزم ایسی ہوتی جہاں مولانا اپنی ٹوپی صدری سمیت دور سے نہ پہچانے جاتے ـ مسلم مسائل کے سلسلے ہونے والی تمام میٹنگیں، منترالیہ، اسمبلی، وزیراعلی ودیگر وزراء کے دفاتر، کمشنر آفس،ڈی جی دفتر،حج کمیٹی، اقلیتی کمیشن غرض جہاں کہیں مسلم معاملات پر بات چیت ہو اور مولانا مستقیم نہ ہوں ایسا ممکن نہیں تھا ـ
ممبئی، بھیونڈی وغیرہ میں پاور لوم چلتے تھے پہلے خود یہ کاروبار بھی دیکھتے تھے،اب ماشااللہ تین لائق فائق بچے سنبھالتے ہیں، اسی لئے جہاں بھی جاتے عموما اپنی ٹیکسی کرکے جاتے،.......... عموما جن لوگوں کے سرکار دربار میں تعلقات ہوجاتے ہیں وہ لوگ اپنے تعلقات کا استعمال اپنےذاتی مفاد کے لئے تو کرتے ہی ہیں ان کے قریبی اعزہ واحباب بھی اُن کے مراسم سے فائدہ اٹھاتے ہیں، کوئی لائیسنس بنوالیتا ہے، کوئی فلیٹ اور پلاٹ کے لئے سفارش کروالیتا ہے، کوئی اپنی غیرقانونی تعمیرات کو قانون کے دائرہ میں کروالیتا ہے ـ ........ مگر ہم گواہ ہیں کہ مولانا نے اپنے تعلقات کا فائدہ اپنی ذات اور اپنے اقارب کے لئے کبھی نہیں اُٹھایا ـ یہی وجہ ہے کہ پولیس اور دیگر سرکاری افسران ہوں یا سیاسی لیڈران،میڈیا کے نمائندے ہوں یا شہر دوسرے سرکردہ افراد، سبھی مولانا کا یکساں احترام کرتے تھے ـ
اللہ نے مولانا کو جہاں دیگر صفات سے نوازا تھا وہیں وہ زبان،شعر وادب کا بھی انتہائی ششتہ ذوق رکھتے تھے، مضامین جب کبھی لکھتے اُن میں ادبی چاشنی، سلاست اور روانی بدرجہ اتم موجود ہوتی، جن دنوں ممبئی میں مشاعرے خوب ہوا کرتے تھے مولانا اُن سب میں رونق اسٹیج رہتے، ادبی و تحقیقی سمینار، سمپوزیم وغیرہ اُن کی شرکت کے بغیر ادھورے محسوس ہوتے ـ
ایسا کم ہوتا ہے کہ جن افراد کے اندر تحریری صلاحیت ہو اُن کی تقریر بھی دلچسپی و شوق سے سنی جائے ـ مولانا مستقیم صاحب کے اندر غضب کی تقریری صلاحیت تھی، ہم نے اُن کی مذہبی تقریریں بھی سنی ہیں، سیاسی، سماجی، اصلاحی اور تعلیمی تقریریں بھی سننے کا بارہا اتفاق ہوا ہے، بامحاورہ، صاف اور ستھری زبان تھی، مطالعہ تھا، کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ اچانک کسی اجنبی موضوع پر بولنا پڑگیا، مگر ہر مرتبہ یہ کیفیت تھی کہ .........
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی
کہتے ہیں کہ کسی آدمی کو سمجھنے کے لئے اس کے ساتھ سفر کرنا ضروری ہے، ہم نے اُن کے ساتھ چھوٹے بڑے کئی سفر کئے، دوسفر دہلی کے تھے ایک ٹرین سے اور ایک ہوائی جہاز سے، اسفار میں مولانا کا جو کردار سامنے آیا اُس سے ہمارے دل میں اُن کی قدرومنزلت کئی گنا بڑھ گئی ـ .......... ہمارا دہلی کا سفر آل انڈیا علماء کونسل کے تحت ممبئی میں ہونے والے ٹرین دھماکوں کے بعد کی صورت حال اور مسلمانوں کی بے جا گرفتاریوں کے خلاف ہوا تھا ـ ایک بڑا وفد ہمارے ہمراہ تھا، اس دوران اس وقت کی کانگریس حکومت کی اعلی ترین قیادت سے ملاقات ہوئی، ساتھ ہی حکومت میں شریک دیگر پارٹیاں نیز اپوزیشن لیڈران سے بھی ملے تھے، ہر جگہ الحمدللہ دوٹوک گفتگو کی سعادت حاصل ہوئی، اس وفد میں سلیقے کی اور مرتب گفتگو کرنے والوں میں مولانا مستقیم صاحب نمایاں تھے ـ ممبئی میں بھی بڑے لیڈران، اعلی پولیس افسران، اور مختلف اقلیتی مذاہب کے رہنما جیسے عیسائی آرک بشپ، بدھ بھکشو، جینیوں کے مہاراج وغیرہ سے بارہا ملاقاتوں میں مولانا کا اور ہمارا ساتھ رہا، ہرجگہ مولانا کی گفتگو دھیمے لہجہ میں، مرتب، سنجیدہ اور صرف موضوع سے متعلق ( To the point) ہوتی تھی، اس طرح مولانا ہر جگہ مخاطب پر اپنی چھاپ چھوڑتے تھے.........
کون سی بات کہاں کیسے کہی جاتی ہے
یہ سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے
آجکل میڈیا اورپریس کی جو کیفیت ہے اُس میں پریس کانفرنس کو خطاب کرنا بہت نازک کام ہے، کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ ہمارے کسی ساتھی کے منہ سے کوئی ایک لفظ ایسا نکل گیا جس کو کسی شریر نمائندے نے اچک لیا اور پوری پریس کانفرنس کو سبوتاز کرنے کی کوشش کی، سچ کہتے ہیں سنھالتے سنبھالتے داتوں پسینہ آگیا وہ تو کہئے کہ کچھ ملت سے ہمدردی رکھنے والے رپورٹر بھی موجود تھے اُنھوں نے اپنے سوالات کرنے شروع کردئے اس طرح پچھلا معاملہ رفت گزشت ہوگیا، اور حالات قابو میں آگئے ـ ............ مولانا مستقیم صاحب جس پریس کانفرنس میں موجود ہوتے ہمیں پورا اعتماد ہوتا کہ معاملہ انشااللہ قابو میں رہے گا ـ
مولانا کو جلسوں کی نظامت کرتے بھی دیکھا ہے، حشووزوائد سے پاک، شعروادب کی چاشنی، کوثروتسنیم میں دھلی ہوئی پیاری زبان، غیر ضروری طوالت اور سطحی اشعارسے پاک مولانا کی معیاری نظامت جسلوں کے اعتبار اور معیار میں غیر معمولی اضافے کا سبب ہوتی تھی ـ
احقر کے یہاں اکثر تشریف لاتے اور دیر تک بیٹھتے، پہلے میں اپنے دواخانے کا کاونٹر بھی سنبھالتا تھا، اکثر تعجب کرتے کہ تم ایک ساتھ کتنے کام کرلیتے ہوں، مریض بھی دیکھتے ہو، مستقل آنے والے فون بھی اُٹھاتے ہو، ریٹیل گراہکوں سے پیسہ لینا واپس کرنا، بغل میں بیٹھے ہوئے مہمان سے گفتگو، سامنے رکھے ہوئے رسالے پر بھی نظر مارتے رہتے ہو، ........ آخرتم آدمی ہو یا جن ؟ میں جواب میں کہتا کہ حضرت یہ سب آپ کی دعاوں کا نتیجہ ہےـ
دراصل ممبئی کے مشہور طبیب مرحوم حکیم مختار اصلاحی ہمارے والد جناب حکیم رحمت اللہ خاں دریابادی مرحوم کے دوست تھے ـ مولانا مستقیم صاحب کا اصلاحی سے خصوصی تعلق تھا، مولانا اکثر دوپہر میں ان کے دواخانے پر جاتے اور دیر تک بیٹھتے تھے، کبھی ایسا ہوتا کہ حکیم اصلاحی صاحب ہمارے ابا سے ملنے ہمارے دواخانے آتے تو اکثر مولانا مستقیم صاحب بھی اُن کے ہمراہ ہوتے، دوپہر چونکہ مریضوں کا وقت نہیں ہوتا تھا اس لئے عصرتک محفل جمتی، مولانا مستقیم صاحب اُس وقت جوان تھے، کبھی مشہور محقق مولانا پرواز اصلاحی کبھی قاضی اطہر مبارکپوری بھی شامل ہوجاتے تھے ـ میں مولانا مستقیم صاحب سے اسی وقت سے متعارف ہوں، میں چھوٹا تھا بڑوں کی محفل میں دور سے شامل رہتا تھا ـ
مولانا مستقیم صاحب کے وصال سے ایک دور ختم ہوا، پسماندگان میں تین صاحبزادگان سے میں واقف ہوں، بڑے مولانا عارف عمری اِن دنوں حج کے سفر میں ہیں، ماشااللہ ذی علم و ذی صلاحیت ہیں، تحقیقی مزاج بھی رکھتے ہیں، ان کئی علمی مضامین و تحقیقی مقالے میری نظر سے گزرے ہیں، شکل و صورت، مزاج ومذاق میں اپنے والد کے مکمل جانشین معلوم ہوتے ہیں ـ دوسرے محمد طارق احسن اعظمی اور تیسرے محمد اطہراحسن اعظمی ہیں ان دونوں کے اندر بھی الحمدللہ صلاح و فلاح کی صفات پائی جاتی ہیں ـ اللہ کی ذات سے پوری امید ہے کہ مولانا کے یہ پسماندگان " ولدُُ صالحُُ یَدعوله " کا مصداق ثابت ہوں گے ـ
رہ گئی اپنے لئے ایک خیالی دنیا
ہم تو رخصت ہوئے اوروں نے سنبھالی دنیا
محمود احمد خاں دریابادی
۲۱ جون ۲۰۲۳ء شب دو بجے