حضرت ابراہیم علیہ السلام | سراج احمد برکت اللہ فلاحی

Hajrat Ibrahim Alaihis salam


حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت ہی مشہور نبی گزرے ہیں۔ آپ کی پیدائش عراق کے مشہور شہر اْر میں ہوئی۔ آپ کے والد صاحب کا نام آزر تھا۔ جو بادشاہ وقت نمرود کے بہت قریبی تھے اوروہ بت گری کے پیشہ سے وابستہ تھے۔وہ بت بنا بنا کر بیچتے تھے۔ ان کا پورا خاندان بہت مذہبی کہلاتا تھا۔ عراق میں اس وقت بت پرستی اورستارہ پرستی کا عام رواج تھا۔ پورا ملک شرک و کفر میں ڈوباہوا تھا۔ وہ پیدا ہوئے تو دیکھا کہ ان کے والد روز بت بناتے ہیں، سنوارتے اور سجاتے ہیں اور بازار لے جاکر بیچ آتے ہیں۔ گاؤں میں جگہ جگہ بت رکھےہوئے ہیں۔ بڑے بڑے بت خانے ہیں، لوگ وہاں جاتےہیں، چڑھاوے چڑھاتے ہیں اور مورتیوں کے سامنے کھانے پینے کی چیزیں چھوڑ آتے ہیں۔ پتھرکی مورتی کیا کھائے اور کیا جانے۔ارد گرد گندگی ہی گندگی ہوتی ہے۔کتے،بلی اور جانور آتے ہیں اور سب چٹ کر جاتےہیں۔یہ سب دیکھ دیکھ کر ان کو گھٹن ہورہاتھا۔انہیں کسی پل چین نصیب نہ تھا، وہ ہمیشہ اسی فکر میں ڈوبے رہتے تھے۔ وہ حق کے متلاشی تھے۔ آخر ایک دن ان کو معرفت مل ہی گئی۔اللہ تعالیٰ نے ان کو نبی بنایا،وحی کے ذریعہ شرک سے بے زاری،توحید اور بندگئی رب کی تعلیم دی۔


 حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت سوجھ بوجھ رکھتے تھے۔لوگوں کے اعمال، معاشرہ میں رائج رسوم وعبادات اور بڑے لوگوں کی باتیں دھیان سے سنتے اور ان پر غور کرتے تھے۔وہ دین حق کے متلاشی تھے،انہوں نے کائنات کی چیزوں پر غور کرنا شروع کیا۔دن و رات کی آمد ورفت،سورج چاند اور ستاروں کی گردش پر بھی غور کیا۔با لآخر اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس کائنات میں سب بڑی ہستی اللہ کی ذات ہے۔

 اب انہوں نے اللہ کے بارے میں بتانا شروع کیا۔ وہ سب کو صرف ایک اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے تھے اور شرک سے روکتے تھے۔ اپنے والد محترم کو بھی بہت پیارے انداز میں سمجھایا اور بہت سمجھایا لیکن نہیں مانے۔اُلٹا بیٹے ابراہیم پر ہی ناراض ہوگئے اور ان کوگھر سے نکال باہر کیا اور ناراض ہوکر کہا: اے ابراہیم سن ! تو واپس اپنےباپ دادا کے دین دھرم کو اختیار کرلے ورنہ پتھر وں سے مار مار کر تجھے ہلاک کردیں گے۔لیکن وہ اپنی دعوت سے پھر بھی باز نہ آئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس بات کی بڑی فکر تھی کہ ان کے شہر کے لوگ ایمان لے آئیں۔ بہت سمجھایا اور بتایا لیکن لوگ ایمان نہیں لائے۔الٹے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی باتوں کا مذاق اڑاتے، ہنستے اور پھبتیاں کستے۔ گالیاں دیتے اور بہت ستاتے تھے لیکن وہ برابر صبر کرتے رہے۔ ایک دن جب گاؤں کے سب لوگ میلہ دیکھنے چلے گئے۔وہ اکیلے گھر سے نکلے اور بڑے بت خانے پر گئے۔کلہاڑی اٹھائی اور ایک طرف سے سارے بتوں کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔جب سب کا کام تمام ہوگیا تو آخر میں بت خانہ میں جو سب سے بڑا بت تھا اس کے گردن میں کلہاڑی لٹکا دی اور گھر آگئے۔جب لوگ میلہ سے اپنے گھروں کو لوٹے اور بت خانہ گئے تو دیکھ کر حیران اور ششدر رہ گئے۔
 حضرت ابراہیم علیہ السلام چوں کہ بتوں کی کم زوریاں بیان کیا کرتے تھے،اس لیے ان کو بلایا گیا۔آپ نے کہا عجیب بات کرتے ہو۔کلہاڑی تمہارے بڑے بت کے گردن میں ہے اور سوال مجھ سے کرتے ہو ؟ اگر یہ بت بولتے نہیں،سنتے نہیں، سامنے رکھا ہوا کھانا اور چڑ ھاوا کھاتے نہیں، ان کو کوئی مارے پیٹے تو روتے چلاتے اور اپنے آپ کو بچاتے بھی نہیں، تو آخر ان کی پو جا کیوں کرتے ہو؟کیا آپ لوگوں کو ذرا بھی عقل و شعور نہیں ہے؟ اے میرے گاؤں خاندان کے لوگوں تمہیں کیا ہوگیاہے؟
 پورے گاؤں میں اس حادثہ کاچرچا ہوا۔لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی باتوں پر غور کیا کرتے۔ وہ سب کے سب جھلاگئے اور الٹے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو برا بھلا کہنے لگے۔ بادشاہ وقت نمرود کے دربار میں حضرت ابرہیم علیہ السلام کو بلایا گیا اور شاہی فرمان جاری ہوا۔اے ابراہیم سنو ! ہم ایک زمانے سے بتوں کی پوجا کرتے چلے آئے ہیں۔اپنے باپ دادا اور بزرگوں کی قدر کرواور ان کی پوجا تم بھی کرو۔آج کے بعد سے بتوں کو برا بھلا کہنا بند کردو۔ورنہ دیکھویہ آسمان چھوتاہوا آگ کا الاؤ تیار ہے۔ اس میں کود کر جل مرنے کےلیے تیار ہو جا ؤ۔ حضرت ابرہیم علیہ السلام کو اللہ نے توفیق دی، وہ توحید پر قائم رہے اور اعلان کردیا کہ میں شرک ہرگز ہرگز نہیں کر سکتا۔ میں صرف ایک اللہ کی بندگی کروں گا۔نمرود کا حکم ہوا اور آپ کو آگ کے الاؤ میں پھینک دیا گیا۔ اللہ رب العزت کی قدرت کو جلال آیا۔آگ کو فوراً حکم ہوا کہ ابراہیم کےلیے ٹھنڈی اور ساز گار ہو جا۔

 جب اپنے ملک اور وطن کے لوگوں نے دین حق کی بات نہ سنی تو انہوں نے ہجرت کا فیصلہ کیا۔ پہلے مصر گئے پھر مکہ آئے اور پھر شام گئے۔ دوسری بیوی حضرت ہاجرہ سے ایک بیٹا اسماعیل علیہ السلام پیداہوئے اور بعد میں پہلی بیوی حضرت سارہ سے بھی ایک بیٹا اسحاق علیہ السلام پیدا ہو ئے۔یکے بعد دیگرے دونوں کو نبوت ملی۔ جب کہ نمرود عبرت کی موت مرا اور اس کی سلطنت بھی تباہ ہوگئی۔زیادہ دن نہیں گذرا تھا کہ انکار حق کی وجہ سے پوری قوم تباہ کردی گئی لیکن حضرت ابرہیم علیہ السلام کی اولاد میں نبوت کا طویل سلسلہ چلا۔کئی نسلوں اور کئی صدیوں تک حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کو اللہ نے نبوت سےسر فراز کیا۔ ان کے پوتے حضرت یعقوب علیہ السلام کے بعد اُن کی اولاد بنواسرائیل کہلائی۔ نبوّت و خلافت کی شان دار تاریخ اس خاندان نے رقم کی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک اسی خاندان بنو اسرائیل میں انبیائے کرام پے در پے مبعوث ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ جب آخری نبی حضرت محمدﷺ بنو اسماعیل میں مبعوث کیے گئے تو اولاً سارے بنواسرائیل نے اس کا انکار کیا حالاں کہ وہ اپنے بال بچوں کی طرح آخری نبی کو پہچان چکے تھے۔
 حضرت ابراہیم علیہ السلام انتہائی نیک، متّقی نڈر اور بہادر اور جفاکش تھے۔ انہوں اپنی پوری زندگی دین حق کی طرف لوگوں کو بلانے میں وقف کردی۔دین کی راہ میں سخت سے سخت آزمائشوں پر صبر کیا۔ گھر بار چھوڑا، ہجرت کی، اکلوتے بیٹے کی قربانی پیش کی۔ مسلسل سفر کی صعوبتیں برداشت کیں،بادشاہ وقت سے ٹکرا گئے، حکم ہوا تو بے آب وگیاہ سر زمین میں ننھے شیر خوار بیٹے اسماعیل اور بیوی ہاجرہ کو چھوڑ کر گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ مکہ گئے تو وہاں مرکز توحید بیت اللہ قائم کیا اور جب فلسطین گئے تو وہاں قبلہ اول مسجد اقصیٰ قائم کیا۔ ان کی زندگی میں آزمائشیں ہی آزمائشیں تھیں لیکن وہ صبر کرتے رہے۔ راہ حق میں صبر اور استقامت ان کے زندگی کا نمایا وصف ہے۔
 حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر قرآن مجید میں بکثرت آیا ہے۔ آپ ابو الانبیاء ہیں، آپ کا لقب خلیل اللہ ہے۔ آپ کی ایک صفت حنیف ہے، آپ کو اللہ نے صحیفوں سے نوارا تھا۔ آپ کی زندگی ہمارے لیے اسوہ ہے۔ آپ شرک سے حددرجہ نفرت کرتے تھے۔ آپ کو بت شکن بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کو شرک، اہل شرک اور مشرکین سے شدید نفرت اور عداوت تھی۔ آپ کی مشہور دعا ہے۔ ربِ ھب لی من الصالحين. اے اللہ ہمیں نیک اولاد نصیب فرما۔ خانہ کعبہ آپ نے اور آپ کے بڑے صاحب زادے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے مل کر تعمیر کی۔ حج کے لیے عام اعلان کیا۔ اہل مکہ اور اُمتِ محمدیہ کی خیر و برکت کے لیے مشہور دعا کی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت مہمان نواز بھی تھے۔ بہت زیادہ نیک اور سچے تھے۔ آپ کا 
لقب صدیق بھی ہے۔ ختنہ آپ کی سنت ہے اور قربانی بھی آپ کی سنت ہے۔
 اللہ تعالٰی ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق دے اور ان کے اسوہ کو اختیار کرنے کی توفیق دے۔ آمین

Post a Comment

Previous Post Next Post f